سوال نمبر 1: اموالِ تجارت میں زکوٰۃ کب فرض ہوتی ہے؟
جواب :تجارت کی کوئی چیز ہو جب اس کی قیمت سونے یا چاندی کے نصاب کر پہنچے و اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہے یعنی قیمت کا چالیسواں حصہ، اور اگر اسباب کی قیمت تو نصاب کو نہیںپہنچتی مگر اس کے پاس ان کے علاوہ سونا چاندی بھی ہے تو ان کی قیمت سونے چاندی کے ساتھ ملا کر مجموعہ کریں اگر مجموعہ نصاب کو پہنچا تو زکوٰۃ واجب ہے ورنہ نہیں۔ (درمختار وغیرہ)
سوال نمبر 2: مالِ تجارت میں کس وقت کی قیمت معتبر ہوگی؟
جواب :مالِ تجارت میں سال گزرنے پر جو قیمت ہوگی اس کا اعتبار ہے مگر شرط یہ ہے کہ شروع سال میں اس کی قیمت200 درہم سے کم نہ ہو اور اگر مختلف قسم کے اسباب ہوں تو سب کی قیمتوں کا مجموعہ باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولے سونے کی قدر ہو (عالمگیری) یعنی جب کہ اس کے پاس یہی مال ہو اور اگر اس کے پاس سونا چاندی اس کے علاوہ ہو تو اسے ان کے ساتھ ملا کر قیمت لگائیں گے ۔ (بہارِ شریعت)
سوال نمبر 3: سالِ تمام پر نرخ گھٹ بڑھ جائے تو حساب کس طرح ہوگا؟
جواب :غلّہ یا مالِ تجارت سالِ تما م پر ۲۰۰درہم کا ہے پھر نرخ بڑھ گھٹ گیا تو اگر اسی میں سے زکوٰۃ دینا چاہیں تو جتنا اس دن تھا اس کا چالیسواں حصہ دے دیں اوراگر اس کی قیمت میں کوئی اور چیز دینا چاہیں تو وہ قیمت لی جائے گی جو سالِ تمام کے دن تھی اور اگر وہ چیز سالِ تمام کے دن تر تھی اب خشک ہو گئی جب بھی وہی قیمت لگائیں گے جو اس دن تھی اور اگر اس روز خشک تھی اب بھیگ گئی تو آج کی قیمت لگائیں۔ (عالمگیری)
سوال نمبر 4: گھوڑوں کی تجارت میں جھول اور لگام وغیرہ پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟
جواب :گھوڑوں کے تاجر نے جھول اور لگام اور رسیاں وغیرہ اس لیے خریدیں کہ گھوڑوں کی حفاظت میں کام آئیں گی تو ان کی زکوٰۃ نہیں اور اگر اس لیے خریدیں کہ گھوڑے ان کے سمیت بیچے جائیںگے تو ان کی بھی زکوٰۃ ہے۔ (عالمگیری)
سوال نمبر 5: مالِ تجارت کسی کے ہاتھ ادھار بیچ ڈالا تو زکوٰۃ کب ادا کرے؟
جواب :مالِ تجارت کا ثمن مثلاً کوئی مال اس نے بہ نیتِ تجارت خرید اور اسے کسی کے ہاتھ ادھار بیچ ڈالا یا مالِ تجارت کا کرایہ مثلاً اس نے کوئی مکان یا زمین بہ نیتِ تجارت خریدی اور اسے رہائشی یا کھیتی باڑی کے لیے کرایہ پردے دیا، یہ کرایہ اگر اس پر دَین (قرض) ہے تو یہ دَین قوی کہلاتا ہے اور دَین قوی کی زکوٰۃ بحالت دَین ہی سال بہ سال واجب ہوتی رہے گی مگر واجب الاد اس وقت ہے کہ جب پانچواں حصہ نصاب کا وصول ہو جائے مگر جتنا وصول ہو اتنے ہی کہ واجب الاادا ہے، قرض جسے دستگرداں کہتے ہیں وہ بھی دَینِ قوی ہے۔ جیسا کہ گذشتہ سبق میں گزرا۔
سوال نمبر 6: کسی نے گھر کا غلہ وغیرہ ادھار بیچ دیا تو اس کی زکوٰۃ کب ادا کی جائے گی؟
جواب :گھر کا غلّہ یا سوار کا گھوڑ وغیرہ یا اور کوئی شے حاجتِ اصیلہّ کی بیچ ڈالی اور دام خریدار پر باقی ہیں اسے شریعت میں دینِ متوسط کہتے ہیںیعنی ایسے کسی مال کا بدل جو تجارت کے لیے نہ تھی اپنی ضرورت کی تھی مگر بیچ ڈالی اور وہ بھی ادھار تو ایسی صورت میںزکوٰۃ دینا اس وقت لازم آئے گا 200 ددہم پر قبضہ ہو جائے۔ (درمختار)
سوال نمبر 7: جس مالِ تجارت پر ایک مرتبہ زکوٰۃ اد ا کر دی پھر دوسرے سال اس پر زکوٰۃ ہوگی یا نہیں؟
جواب :مالِ تجارت جب تک خود یا دوسرے مال زکوٰۃ سے مل کر قدرِ نصاب اور حاجتِ اصیلہّ سے فاضل رہے گا ہر سال اس پر تازہ زکوٰۃ واجب ہوگی ، صرف اس کے نفع پر نہیں بلکہ تمام مالِ تجارت پر۔ (فتاویٰ رضویہ)
سوال نمبر 8: ایک شخص نے معمولی چیز کو اپنی صناعی اور دستکاری سے بیش قیمت بنا لیا اور فروخت کر دیا تو اب زکوٰۃ کس حساب سے دے؟
جواب :ہر چند ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنے پیشے کی چیز خریدار کی رضا مندی سے ہزار روپے کو بیچے جب کہ اس میں کذب و فریب اور مغالطہٰ نہ ہو مگر زکوٰۃ وغیرہ میں جہاں واجب شے کی جگہ کوئی اور چیز دی جائے تو صرف بلحاظِ قیمت ہی دی جاسکتی ہے اور قیمت بھی وہی معتبر ہوگی جو بازاری نرخ کے مطابق ہو نہ کہ اس کی قیمتِ خرید۔ (فتاویٰ رضویہ)
سوال نمبر 9: کرایہ پر جو سامان دیاجاتا ہے اس پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟
جواب :کرایہ پر جو سامان دیا جاتا ہے مثلاً دیگیں، سائیکلیں ، موٹر، خیمے ، شامیانے وغیرہ ان پر خود پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہاں ان کا کرایہ بقدرِ نصاب ہو تو سالِ تمام پر زکوٰۃ کرایہ کی رقم پر فرض ہوگی جب کہ اور شرائط بھی پائی جائیں جیسا کہ مکانوں دکانوں کے کرایہ کا حکم ہے۔
سوال نمبر 10: عطر فروش کی شیشیوں پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟
جواب :عطر فروش نے عطر بیچنے کے لے جو شیشیاں خریدیں ان پر زکوٰۃواجب ہے (ردالمحتار) کہ وہ بھی مالِ تجارت میں داخل ہیں۔
سوال نمبر 11: تجارت کے لیے جوسامان قرض لیا اس پر زکوٰۃ دی جائے گی یا نہیں؟
جواب :جو شخص صاحبِ نصاب ہے اس نے کسی سے کوئی چیز تجارت کے لیے قرض لی تو یہ بھی تجارت کے لیے ہے۔ مثلاً کوئی شخص 200 درہم کا مالک ہے اورا س نے من بھر گیہوں تجارت کے لیے لےئے تو زکوٰۃ واجب ہوگی ہاں اگر تجارت کے لیےے نہ لیے تو زکوٰۃ واجب نہیں کہ گیہوں کے دد م انہیں دو سو سے مجرا کئے جائیں گے تو نصاب باقی نہ رہا۔ (عالمگیری وغیرہ