سوال نمبر 1: زکوٰۃ فرض ہونے کی شرطیں کیا ہیں؟
جواب :زکوٰۃ فرض ہونے کے لیے چند شرطیں ہیں:
۱۔ مسلمان ہونا، کافر پر زکوٰۃ واجب نہیں۔
۲۔ بالغ ہونا، نابالغ پر زکوٰۃ فرض نہیں۔
۳۔ عاقل ہونا، بوہرے(مجنون) پر زکوٰۃ فرض نہیں جبکہ اسی حال میں سال گذر جائے اور کبھی کبھی اسے افاقہ ہو جاتا ہے تو فرض ہے۔
۴۔ آزاد ہونا، غلام پر زکوٰۃ نہیں اگرچہ اس کے مالک نے تجارت کی اجازت دے دی ہو۔
۵۔ مال بقدرِ نصاب اس کی ملک میں ہونا، اگر نصاب سے کم ہے تو زکوٰۃ نہیں۔
۶۔ پورے طور پر اس کا مالک ہونا، یعنی اس پر قبضہ بھی ہو۔
۷۔ نصاب کا دین (قرض) سے فارغ (بچا ہوا) ہونا۔
۸۔ نصاب کا حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہونا۔
۹۔ مال کا نامی ہونا یعنی بڑھنے والا، خواہ حقیقتہً ہو یاحکماً۔
۱۰۔ نصاب پر ایک سال کا مل کا گذر جانا ۔(عامۂ کتب)
سوال نمبر 2: دین سے نصاب کے فارغ ہونے کا کیا مطلب ہے؟
جواب :اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص نصاب کا مالک ہے مگر اس پر قرض ہے کہ قرض ادا کرنے کے بعد نصابِ زکوٰۃباقی نہیں رہتا تو زکوٰۃ واجب نہیں یا یہ خود مقروض نہیں بلکہ کسی مقروض کا کفیل (ضامنِ) ہے اور ضمانت کے روپے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہیں رہتا تو زکوٰۃ فرض نہیں کہ قرضخواہ کو اختیار ہے کہ اسی سے اپنے مال کا مطالبہ کرے۔ (عالمگیری،ردالمحتار)
سوال نمبر 3: حاجتِ اصیلہّ کسے کہتے ہیں؟
جواب :جس چیز کی طرف زندگی بسر کرنے میں آدمی کو ضرورت ہے، اسے حاجتِ اصیلہّ کہتے ہیں، اس میں زکوٰۃ واجب نہیں جیسے رہنے کا مکان ، جاڑے گرمیوں میں پہننے کے کپڑے ، خانہ داری کا سامان، سواری کے جانور ، پیشہ وروں کے اوزار، اہل علم کے لیے حاجت کی کتابیں، کھانے کے لیے غلہ، (ردالمحتار) یونہی حاجتِ اصیلہّ میں خرچ کرنے کے لیے روپے پیسے۔
سوال نمبر 4: مالِ نامی سے کیا مراد ہے؟
جواب :مال دو قسم کے ہیں، ایک یہ کہ وہ پیدا ہی اس لیے ہوئے ہیں کہ ان سے چیزیں خریدی جائیں، اسے پیدائشی کہتے ہیں جیسے سونا چاندی، دوسرے وہ مال جو اس کے لیے پیدا نہیں ہوئے مگر ان سے یہ کام بھی لیا جاتا ہے، اسے فعلی (کام چلانے والا) مال کہتے ہیں۔سونے چاندی کے علاوہ سب چیزیںفعلی ہیں کہ تجارت سے سب میں نمُو (زیادہ)ہوگی سونے چاندی میں مطلقاً زکوٰۃ واجب ہے جبکہ بقدرِ نصابہ ہوں، اگر چہ دفن کرکے رکھے ہوں، تجارت کرے یا نہ کرے اور ان کے علاوہ باقی چیزوں پر زکوٰۃ اس وقت واجب ہے کہ ان میں تجارت کی نیت ہو،یہی حکم چرائی پر چھوڑے ہوئے جانوروں اونٹ گائے بھینس بیل بکری بھیڑ دنبہ کا ہے اور سکۂ رائج الوقت سونے چاندی کے حکم میں ہے۔ (عامۂ کتب)
سوال نمبر 5: نصاب پر سال گزرنے سے کونسا سال مراد ہے؟
جواب :سال سے مراد قمری سال ہے یعنی چاند کے مہینوں سے بارہ مہینے ، یوں سمجھو کہ سب میں پہلی جس عربی مہینے کی جس تاریخ جس گھنٹے منٹ پر وہ مالکِ نصاب ہوا، وہی مہینہ تاریخ گھنٹہ منٹ اس کے لیے زکوٰۃ کا سا ل ہے، آمدنی کا سال خواہ کبھی سے شروع ہوتا ہو اور شروع سال اور آخر سال میں نصاب کامل ہے مگر درمیان میں نصاب کی کمی ہو گئی تو اس کمی کا کوئی اثر زکوٰۃ پر نہیں پڑے گا یعنی زکوٰۃ واجب ہے۔ (عالمگیری)
سوال نمبر 6: مالِ تجارت کو درمیان سال کسی اور چیز سے بدل لیا تو اب اس مال پر زکوٰۃ واجب ہوگی یا نہیں؟
جواب :مالِ تجارت یا سونے چاندی کو درمیان سال میں اپنی ہی جنس مثلاً زیورات سے بدل لیا یا کوئی اور جنس بدلے میں لے لی تو اس کی وجہ سے سال گذرنے میں نقصان نہ آیا بلکہ زکوٰۃ واجب ہوگی۔ (عالمگیری)
سوال نمبر 7: مالکِ نصاب کا مال درمیانِ سال میں بڑھ جائے تو کتنے مال پر زکوٰۃ ہوگی؟
جواب :جو شخص مالکِ نصاب ہے ، اگر درمیانِ سال میں کچھ اور مال اسی جنس کا اسے حاصل ہوگا تو اس نئے مال کا جدا سال نہیں بلکہ پہلے مال کا ختم سال ، اس کے لیے بھی سالِ تمام ہے اگرچہ یہ مال سالِ تمام سے ایک ہی منٹ پہلے حاصل کیا ہو۔ (جوہرہ نیرّہ)
سوال نمبر 8: نماز کی طرح کیا زکوٰۃ میں بھی نیت شرط ہے؟
جواب :ہاں! زکوٰۃ دیتے وقت یا زکوٰۃ کے لے مال علےٰحدہ کرتے وقت نیتِ زکوٰۃ شرط ہے ، نیت کے یہ معنی ہیں کہ اگر پوچھا جائے تو بلا تامل بتا سکے کہ یہ مالِ زکوٰۃ ہے۔ لہٰذااگر کوئی شخص سال بھر تک خیرات کرتا رہا، اب نیت کی کہ جو کچھ دیا ہے، سب زکوٰۃ ہے تو یہ نیت معتبر نہیں اور زکوٰۃ اد ا نہ ہوئی۔ (عالمگیری)
یہ بھی زہن نشین رکھنا چاہیے کہ جس طرح زکوٰۃ میں نیت شرط ہے ، بے (بغیر) اس کے ادا نہیں ہوتی، اسی طرح نیت میں اخلاص شرط ہے ، بغیر اخلاص کے نیت مہمل اور خلاص کے معنی ہیں کہ جو کچھ دے بہ نیتِ زکوٰۃ اور ادائیگی فرض اور حکم الٰہی کی بجا آوری کے لیے دے اس کے ساتھ کوئی اور امرِجو زکوٰۃ کے منافی ہے اس کا قصد نہ کرے ۔ (فتاویٰ رضویہ وغیرہ)
سوال نمبر 9: زکوٰۃ کی نیت سے مال جدا کر لیا پھر وہ جاتا ر ہا تو زکوٰۃ ادا ہوئی یا نہیں؟
جواب :مالِ زکوٰۃ کو بہ نیت زکوٰۃ علےٰحدہ کر دینے سے آدمی بری الذمہ نہ ہوگا جب تک فقیروں کو نہ دے دے یہاں تک کہ اگر وہ ضائع ہو گیا تو زکوٰۃ ساقط نہ ہوئی اور اگر مر گیا تو اس میں وراثت جاری ہوگی۔(درمختار، ردالمحتار)
سوال نمبر 10: زکوٰۃ علانیہ دی جائے یا پوشیدہ طور پر ، چھپا کر ؟
جواب :زکوٰۃ علانیہ اور ظاہر طور پر واجب افضل ہے اور نفل صدقہ، جسے لوگ خیرات کہتے ہیں ، چھپا کر دینا افضل ہے (عالمگیری)ز کوٰۃ میں اعلان اس وجہ سے ہے کہ چھپا کر دینے میں لوگوں کو تہمت اور بدگمانی کا موقع ملے گا اور حدیث شریف کا حکم ہے کہ تہمت کی جگہوں سے بچو! نیز اعلان اوروں کے لیے باعثِ ترغیب ہے کہ اس کو دیکھ کر اور لوگ بھی دیں گے مگر یہ ضرور ہے کہ ریاء نہ آنے پائے کہ ثواب جاتا رہے گا بلکہ گناہ و استحقاقِ عذاب ہے، اسے سزا دی جائے تو ناحق نہ ہو گی کہ یہ وبال ء ریاء کہ بدولت وہ خود خرید چکا۔
سوال نمبر 11: زکوٰۃ کہہ کر مستحق کو دینا ضروری ہے یا نہیں؟
جواب :زکوٰۃ دینے میں اس کی ضرورت نہیں کہ فقیر کو زکوٰۃ کہہ کر دے بلکہ صرف نیتِ زکوٰۃ کافی ہے یہاں تک کہ اگر ہبہ یا قرض کہہ کر دے اور نیت زکوٰۃ کی ہو تو زکوٰۃ ادا ہو گئی (عالمگیری) اسی طرح نذر یا ہدیہ یا پان کھانے یا بچوں کے مٹھائی کھانے یا عیدی کے نام سے دی، زکوٰۃ ہو گئی۔ بعض محتاج ضرورت مند زکوٰۃ کو روپیہ نہیں لینا چاہیے انہیں زکوٰۃ کہہ کر دیا جائے گا تو نہیں لیں گے لہٰذا زکوٰۃ کا لفظ نہ کہے۔ (بہار شریعت ، فتاویٰ رضویہ)
سوال نمبر 12: سالِ تمام سے پیشتر زکوٰۃ ادا کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب :مالکِ نصاب سال تمام سے پیشتر بھی ادا کر سکتا ہے اور پیشتر سے چند سال کی بھی زکوٰۃ دے سکتا ہے (عالمگیری) لہٰذا مناسب ہے کہ زکوٰۃ میں تھوڑا تھوڑا دیتا رہے ختمِ سال پر حساب کر لے، اگر زکوٰۃ پوری ہو گئی فبہا اور کچھ کمی ہو تو اب فوراً دے دے تاخیر جائز نہیں ، نہ اس کی اجازت کہ اب تھوڑا تھوڑا کرکے ادا کرے، بلکہ جو کچھ باقی ہے کل فوراً اداکر دے اور زیادہ دے دیا ہے توآئندہ سال میں مجریٰ کر دے۔ (بہار شریعت)
سوال نمبر 13: سال گزر جانے پر تھوڑ ا تھوڑا دینے میں کیا خرابی ہے؟
جواب :اگر سال گز ر گیا اور زکوٰۃ واجب الادا ہو چکی تو اب بتدریج یعنی تھوڑا تھوڑا مال زکوٰۃ ادا کرتے رہنا جائز نہیں بلکہ فوراً تمام و کمال ، زرِ واجب الادا ادا کرے، اس میں تاخیر باعثِ گناہ بلکہ اس کی اد ا میں تاخیر کرنے والا مردودالشہادۃ ہے (کہ اس کی گواہی مقبول نہ ہوگی) پھر تاخیر میںسو آفتیں ہیں، ظاہر ہے کہ وقتِ موت معلوم نہیں، ممکن ہے کہ ادا کرنے سے پہلے ہی آجائے گا تو بالا جماع گنہگار ہوگا اور وبالِ آخرت اس پر سوار رہے گاپھر مالی اور جانی حادثے آئے دن درپیش، مشہور ہے کہ بُرا وقت کہہ کر نہیں آتا اور مان لو کہ آدمی حادثات سے محفوظ بھی رہا تو نفس پر اعتماد کسے ہے؟ ممکن ہے کہ شیطان بہکا دے اور آج جو ادا کا قصد وارادہ ہے ، کل وہ بھی نہ رہے۔
اور جنہیں یہ خیال ہو کہ مالِ زکوٰۃ روک رکھیں اور جس وقت جس حاجت مند کو دینا زیادہ مناسب سمجھیں اسے دیں یا یہ کہ سائل (مانگنے والے مستحق فقیر) بکثرت آتے رہتے ہیں، یہ چاہتا ہے کہ مالِ زکوٰۃ ان کے لیے رکھ چھوڑے کہ وقتاًفوقتاًدیا کرے یا یہ کہ یکمشت دینا ذرہ نفس پر بار ہے اور تھوڑا تھوڑا نکلتا جائے گا تو معلوم نہ ہوگا تو ایسوں کے لیے راہ یہی ہے کہ زکوٰۃ پیشگی دیا کریں ، اس میں ان کا مقصد بھی حاصل ہوگا اور شرعی گرفت سے بھی بچے رہیں گے، ہاں اور زیادہ ثواب چاہے تو بہتر ماۂ رمضان المبارک ہے جس میں نفل کا ثواب فرض کے برابر ہے اور فرض کا ثواب ستر فرضوں کے برابر۔ (فتاویٰ رضویہ)